رات انوکھے خواب آئے ہیں شہر کے مجھ کو

رات انوکھے خواب آئے ہیں شہر کے مجھ کو
خون آلود اور کٹا، پھٹا اک ویرانہ
تم تو اپنے پاؤں سلامت لے آئے ہو
لیکن مجھ کو رستے آدھا چاٹ گئے ہیں
ایک عجیب شکایت ہے دوپہر کو مجھ سے
میں اپنے ہی آپ میں پیڑ بنا پھرتا ہوں
تم مجھ سے کچھ بولو کچھ تو بولو نا
ورنہ یہ چپ میرے اندر چیخ پڑے گی
اتنا ڈھیر کہاں لے جاؤ گے زخموں کا
آؤ فرحت آدھا آدھا کر لیتے ہیں
ایک عجب مسکان سی تھی اُس کے ہونٹوں پر
شاید اس نے میرے اندر جھانک لیا تھا
صدیوں پہلے دل میں کوئی خواہش سی تھی
رفتہ رفتہ ہم نے اس کو مار دیا ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *