تو مجھ کو خواب لگتا ہے

تو مجھ کو خواب لگتا ہے
تو مجھ کو خواب لگتا ہے
کوئی مدت پرانا خواب
یادوں کی عنابی جھیل میں کنکر گراؤں تو
تری باتیں، ترا چہرہ تڑح کر ٹوٹ جاتا ہے
میں ایسے بت بھلا کب تک سمیٹے سوچتا رہتا
کہ تو بولے گا اور صدیوں پرانے چپ زدہ لمحے
مرے بیمار منظر میں دلاسہ لے کے اتریں گے
مری آنکھیں مرے پس منظروں کو چھوڑ آئی ہیں
کہیں تو تھا کہیں تیرے نشانوں پر مری بنیاد رکھی
جا چکی تھی پیار کے ہاتھوں
مگر جو وقت ہے نا
یہ بھی اک بنیاد رکھتا ہے
کبھی ایسی کہ مر کر بھی نہیں گرتا کوئی دیوار و در کوئی دریچہ
یا کوئی چوکھٹ
کبھی ایسی کہ دیواریں کھڑی ہونے سے پہلے عزم گرتا ہے
کبھی حالات کی مرضی سے گرنا اور پھر تقسیم ہونا جاری رہتا ہے
تو مجھ کو خواب لگتا ہے
کوئی مدت پرانا خواب
جس پر جانے کس کس درد نے بنیاد رکھی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *