آنکھوں سے کچھ بیاں ہوا کچھ دل میں رہ گیا
دل مبتلا عجیب سی مشکل میں رہ گیا
اہلِ جنوں کے خون کی چھینٹیں نہ مٹ سکیں
وحشت کا عکس دیدۂ قاتل میں رہ گیا
رہ رہ کے یوں ہی شورِ قیامت اُٹھائے گا
گم گشتہ دردِ عشق اگر دل میں رہ گیا
آیا انھیں پسند بس ایسا ہی حق پرست
خاموش جو حمایتِ باطل میں رہ گیا
طوفاں سے کون لڑنے کو راغبؔ تھا بے قرار
کس کا سفینہ دامنِ ساحل میں رہ گیا
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: یعنی تُو