زخمی اور تھکا ہوا پرندہ

زخمی اور تھکا ہوا پرندہ
کہاں ہو تم؟
تم کہاں ہو؟
میں نے کہا تھا
میں نے تمہیں کہا تھا
اس پہاڑی سلسلے کو اتنا نہ بڑھنے دو
اسے روک لو
اور تم ہنس پڑیں
اور تم نے کہا
پہاڑیاں رینگنے والوں کے لیے ہوتی ہیں
اُڑنے والوں کے لئے نہیں
تم نے کہہ تو دیا
لیکن یہ بھول گئیں
زخمی اور تھکے ہوئے پرندے کو
ریت کی ایک ڈھیری بھی پہاڑ لگتی ہے
تم کہاں ہو؟
میرے زخمی اور تھکے ہوئے پرندے۔۔۔ کہاں ہوا
مجھے آواز دو
میں نے کبھی کبھی ان پہاڑیوں کی طرف سے
تمہیں اوجھل ہونے دیا
اور اچھا کیا
ورنہ مجھے تم ہی تم نظر آتے
اور پہاڑیوں کے اس طرف
سب کچھ اوجھل رہتا
سب کچھ اوجھل رہتا
اور دنیا محدود ہو جاتی
کائنات سمٹ جاتی
اور دل چھوٹا ہو جاتا
اور دل چھوٹا ہو جاتا
تو تم سرابی نہ رہتیں
پہاڑی کی دوسری طرف کی دنیا تمہیں مبارک
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *