سفر مقصود تھا خود آگہی کا

سفر مقصود تھا خود آگہی کا
ریاضت درد کی کرتا رہا ہوں
کوئی جنگل تھا جس میں شام ڈھلتے
گزر گاہیں ہمیشہ بین کرتیں
جو سنگِ میل آتا تھا نظر بھی
بہت مبہم ہوا کرتا تھا اکثر
دیارِ غیر سے بڑھ کر تھا مجھ کو
مرا اپنا جہانِ ذات فرحت
میں نامعلوم کی بے سمتیوں میں
اُلجھتا جا رہا تھا رفتہ رفتہ
بہت تاریکیاں پھیلی تھیں پھر بھی
کہیں کوئی دیا بھی جل رہا تھا
نیا رستہ کوئی ملتا تو اس پر
تمہارے نام کی تختی بھی ہوتی
میں اپنے آپ کو پانے کی خاطر
تمہاری کھوج میں نکلا ہوا ہوں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – محبت گمشدہ میری)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *