شہر تو سرابی تھی

شہر تو سرابی تھی
سرابی نے ہجرت کی اور شہر ویران ہو گیا
بلکہ ویران کیا ہوا
تھا ہی ویرانہ
شہر تو سرابی تھی
نہ رہی تو ویرانہ رہ گیا
پُر ہول،
سُنسان،
بیابان،
لَق و دق ویرانہ
ہر طرف ایک اجاڑ خاموشی پھیل گئی
خاموشی کی بھی قسمیں ہوتی ہیں
خوبصورت اور شرمائی ہوئی خاموشی
میٹھی اور کجلائی ہوئی خاموشی
بھیگی اور سنولائی ہوئی خاموشی
سرابی چلی گئی
تو ہر طرف ایک اجاڑ خاموشی پھیل گئی
میں نے دیکھا
لوگ ہیں،
گلیاں ہیں،
گھر ہیں،
بازار ہیں
سرابی نہیں ہے
سرابی نہیں ہے
اور لوگ بدل گئے ہیں
ایک دوسرے کے گریبان پھاڑتے ہوئے،
خاک اچھالتے ہوئے،
آدھے ایک گلی میں
آدھے دوسری گلی میں
آستینیں چڑھائے،
خنجر تانے،
آنکھوں میں سرخی پھیلائے،
ماتھوں پہ سیاہی ملے،
سینے پہ زردی سجائے،
آدھے ایک گلی میں
آدھے دوسری گلی میں
اپنے اپنے شیطانوں کے پیچھے
شیطان
لمبی لمبی داڑھیوں
اور عماموں والے
چھوٹی شلواروں
اور موٹی ٹوپیوں والے
ہوس کے پجاری
ایمان کے نام پہ قتل
اور خدا کے نام پہ ظلم کرنے والے
عبادت گاہوں پر بارود
اور مقدس کتابوں پر آگ پھینکنے والے
اپنی اپنی دوکانداری کی خاطر
درود اور پاک کلام بیچنے والے
وہ کہتے!
اسے پکڑو
اور باندھ دو
عریاں کرو
اور تھوڑا تھوڑا کاٹنا شروع کرو
اسے تھوڑا تھوڑا کاٹنا شروع کرو
اور چیخنے دو
یہ بے ایمان ہے اور ہم ایمان والے
اسے چیخنے دو اور خود قہقہے لگاؤ
وہ کہتے
شیطان کہتے اور منواتے
اپنی منواتے
اور سب کچھ کرواتے
اور آنکھوں سے دیکھتے
اور جھومتے
پاگل حیوانوں اور دیوانے درندوں کی طرح
اور کہتے
دونوں گلیوں والے کہتے
یہ دوسری گلی والا ہے یہ بے ایمان ہے اور ہم ایمان والے
اس کا پیٹ پھاڑو
اور انتڑیاں نکلواتے
اور گلے میں ڈال لیتے
اور انہیں نچوڑ نچوڑ کے ان میں جما ہوا خون
اور غلیظ گودا چُوستے
گودا چُوستے
اور داڑھیوں پہ ہاتھ پھیرتے
داڑھیوں پہ ہاتھ پھیرتے
اور زور زور سے ہنستے
ہنستے رہتے،
ہنستے رہتے،
ہنستے رہتے،
کریہہ اور منحوس ہنسی
جب تک انتڑیاں نکلتی رہتیں
جب تک گودا چُوستے رہتے، ہنستے رہتے
وہ معصوم بچوں کی
آنکھیں نکلواتے
اور انہیں جیبوں میں ڈال لیتے
ان کے بازو کتواتے
اور جوتوں کے نیچے مسل دیتے
وہ نصیبوں کی ماری ہوئی ماؤں کے
جوان بیٹوں کی گردنیں کٹواتے
اور خون سے ہاتھ دھوتے
اور ہونٹوں پر ملتے
اور ہونٹوں پر زبان مارتے
اور پھر ہنستے
ہنستے رہتے، ہنستے رہتے، ہنستے رہتے
اور کہتے
مارو
جلاؤ
آگ لگا دو
قتل کر دو
گردن اڑا دو
راکھ کر دو
کافروں کو مارو
دونوں گلیوں والے شیطان کہتے
اور لوگ کرتے
میں نے دیکھا
سب کا سب دیکھا
اپنی پتھر آنکھوں سے
دیکھا
لیکن پاگل نہ ہوا
بس پوچھتا رہا
ایک ایک کو روک رک کے پوچھتا رہا
کسی کے پاس سرابی نہ تھی
ہر کوئی انکار کرتا رہا
میں نے سوچا
ان کے پاس سرابی ہوتی
تو یہ ایک دوسرے کے خون سے ہاتھ رنگتے
ایک دوسرے کا گھر جلاتے
یوں شہر کا شہر برباد کرتے
کبھی نہ کرتے اگر سرابی ہوتی
سرابی چلی گئی
کہیں اور جا بسی
اور جنگل رہ گیا
اور حیوان رہ گئے
پاگل اور خوفناک
میں ڈرا
بہت ڈرا
اور بھاگا
اور شہر چھوڑ گیا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *