کبھی یہاں تو کبھی جا وہاں دراز کرے

کبھی یہاں تو کبھی جا وہاں دراز کرے
وہ اہل دل جہاں دیکھے زباں دراز کرے
یہ چلنے والی بتاتی نہیں کہ ختم ہوئی
مرا خدا تری عمرِ رواں دراز کرے
خود اپنے تیر سے گھائل ہوا ہے اب تو کیا
کہا تھا کس نے کہ مجھ پر کماں دراز کرے
کبھی تو بدلے روایاتِ دشمناں مجھ سے
کبھی تو مجھ پہ وہ دستِ اماں دراز کرے
یہ بادشہ کی نہیں سلطنت فقیر کی ہے
یہاں پہ کوئی نہ سُود و زیاں دراز کرے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *