گمنام دیاروں میں سفر کیوں نہیں کرتے

گمنام دیاروں میں سفر کیوں نہیں کرتے
اُجڑے ہوئے لوگوں پہ نظر کیوں نہیں کرتے
یہ خواب یہ خوشیوں بھرے ہنستے ہوئے یہ خواب
یہ خواب مِرے دل پہ اثر کیوں نہیں کرتے
خواہش کے، طمانیت احساس کے پنچھی
کچھ روز مرے گھر میں بسر کیوں نہیں کرتے
صبحوں سے ہیں مغلوب تو پھر زعم ہے کیسا
راتوں پہ ہیں غالب تو سحر کیوں نہیں کرتے
یہ لوگ مسلسل ہیں جو اک خوف کے قیدی
اس خوف کی دیوار میں در کیوں نہیں کرتے
کیوں آپ اٹھاتے ہو اداسی کے یہ اسباب
شاموں کے غلاموں کو خبر کیوں نہیں کرتے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – کہاں ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *