ہیر آکھیا جوگیا جھوٹ بولیں،

ہیر آکھیا جوگیا جھوٹ بولیں،
کون رٹھڑے یار منانودا اے
ہیں عجب رواج مزاج والے
ہمیں دنیا سے دور نکال گئے
ہمیں سالہا سال سے باندھ دیا
کسی عجب اداسی میں ڈال گئے
ہمیں ادھ جیا مار کے پھینک دیا
کر جان کے ساتھ کمال گئے
کسی سوگ کا روگ عجیب لگا
کئی زخم ہی زخم سنبھال گئے
ہم تو خوش تھے بیچ سمندر کے
ترے آنسو کنارے اچھال گئے
ہمیں سالہا سال خیال والے
سارے شہر کی رہ سے اتار گئے
تھیں عجیب ریاضتیں سوچنے کی
سو وسوسے آر سے پار گئے
تیرے ہجر فراق کی بات ہی کیا
ہمیں تیرے وصال بھی مار گئے
تو جیت گیا! تو جیت گیا
ہم ہار گئے ہم ہار گئے
وہ جو شخص تھا چہرہِ زرد والا
تجھے یاد ہے شہر ہی چھوڑ گیا
یہ گھٹن اور بھیڑ اور گرد والا
تجھے آج بھی چھپ چھپ بھیجتا ہے
اک موسم بارشِ سرد والا
تیری خاطر لے کے پھرا کرے
کبھی آنکھوں میں کبھی سینے میں
کوئی خاص تعلق درد والا
وہ جو آتے تھے راتوں کو خواب لیکر
کئی طرح کا طرز حجاب لیکر
کبھی پانی کبھی سراب لیکر
کہاں کھو گئے روح کی وادی میں
میرے عشق کی پہلی کتاب لیکر
میرے درد کا سارا نصاب لیکر
آجاتے حال احوال اپنا
کبھی ٹھیک لیکر کبھی خراب لیکر
مرے ساتھ عجیب مذاق کریں
چلے جائیں ستاروں سے دور کہیں
میرے حصے کے سارے مہتاب لیکر
مجھے کہتے تھے روز محبت سے
کیوں دیتے ہو خوشی بغیر مانگے
کیا کرو گے میرا عذاب لیکر
مرا شوخ، شجاع، ذہین پیا
ربا تیرے میرے بیچ سدا
اک پردہ عجب مہین پیا
دل دیس بدر، مسکین پیا
دھرے تیرے غم کی چوکھٹ پر
ہر رات ملول جبین پیا
لگی بارش عشق کی تاب والی
پھرے گاتی گیت جہان والے
کرے یاد ہماری آنکھوں کو
دو نین تمہارے نشان والے
جہاں آج بھی بھیگے کناروں پر
ہمیں زخم ہیں کئی گمان والے
ترے غم کے تمغے تاج سجا
پھریں دنیا جہان میں شان والے
ترے درد کے سخت پہاڑ تلے
کبھی بولے نہ ذرا سی جان والے
کہو فرحت شاہ زمانے میں
اک طرف فقیر محبت کے
باقی ہر جا تیر کمان والے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اور تم آؤ)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *