ویرانیوں کے بھید سبھی کھولنے لگے

ویرانیوں کے بھید سبھی کھولنے لگے
سڑکیں ہوئیں خموش تو بن بولنے لگے
تھیں اس قدر عجیب ہوائیں کہ کچھ نہ پوچھ
صحرا کہیں تو ابر کہیں ڈولنے لگے
صدیوں کی خامشی میں لرزتا تھا ہر کوئی
یہ سوچ کر کہ کوئی اگر بولنے لگے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *