مثنوی

مثنوی
در صفتِ انبہ
ہاں، دلِ درد مندِ زمزمہ ساز
کیوں نہ کھولے درِ خزینۂ راز
خامے کا صفحے پر رواں ہونا
شاخِ گل کا ہے گلفشاں ہونا
مجھ سے کیا پوچھتا ہے کیا لکھیے؟
نکتہ ہائے خرد فزا لکھیے!
بارے، آموں کا کچھ بیاں ہوجائے
خامہ نخلِ رطب فشاں ہوجائے
آم کا کون مردِ میدان ہے
ثمر و شاخ گوئے و چوگاں ہے
تاک کے جی میں کیوں رہے ارماں
آئے، یہ گوئے اور یہ میداں
آم کے آگے پیش جاوے خاک
پھوڑتا ہے جلے پھپھولے تاک
نہ چلا جب کسی طرح مقدور
بادہ ناب بن گیا انگور
یہ بھی ناچار جی کا کھونا ہے
شرم سے پانی پانی ہونا ہے
مجھ سے پوچھو، تمہیں خبر کیا ہے!
آم کے آگے نیشکر کیا ہے!
نہ گل اس میں نہ شاخ و برگ، نہ بار
جب خزاں آئے تب ہو اس کی بہار
اور دوڑائیے قیاس کہاں
جانِ شیریں میں یہ مٹھاس کہاں
جان میں ہوتی گر یہ شیرینی
کوہکن باوجودِ غمگینی
جان دینے میں اس کو یکتا جان
پَر وه یوں سہل دے نہ سکتا جان
نظر آتا ہے یوں مجھے یہ ثمر
کہ دوا خانۂ ازل میں، مگر
آتشِ گل پہ قند کا ہے قوام
شیرے کے تار کا ہے ریشہ نام
یا یہ ہوگا، کہ فرط رافت سے
باغبانوں نے باغِ جنت سے
انگبیں کے، بہ حکم رب الناس
بھر کے بھیجے ہیں سربمہر گلاس
یا لگا کر خضر نے شاخِ نبات
مدتوں تک دیا ہے آبِ حیات
تب ہوا ہے ثمر فشاں یہ نخل
ہم کہاں ورنہ اور کہاں یہ نخل
تھا ترنجِ زر ایک خسرو پاس
رنگ کا زرد پر کہاں بو باس
آم کو دیکھتا اگر اک بار
پھینک دیتا طلائے دست افشار
رونقِ کارگاهِ برگ و نوا
نازشِ دودمانِ آب و ہوا
رہروِ راهِ خلد کا توشہ
طوبیٰ و سِدره کا جگر گوشہ
صاحبِ شاخ و برگ و بار ہے آم
ناز پروردہ بہار ہے آم
خاص وه آم جو نہ ارزاں ہو
نو برِ نخلِ باغِ سلطاں ہو
وه کہ ہے والئِ ولایتِ عہد
عدل سے اس کے ہے حمایتِ عہد
فخرِ دیں عزِ شان و جاهِ جلال
زینتِ طینت و جمالِ کمال
کار فرمائے دین و دولت و بخت
چہره آرائے تاج و مسند و تخت
سایہ اُس کا ہما کا سایہ ہے
خلق پر وه خدا کا سایہ ہے
اے مفیضِ وجودِ سایہ و نور!
جب تلک ہے نمودِ سایہ و نور
اِس خداوندِ بنده پرور کو
وارثِ گنج و تخت و افسر کو
شاد و دلشاد و شادماں رکھیو
اور غالبؔ پہ مہرباں رکھیو!
ایک دن مثلِ پتنگِ کاغذی
لے کے دل سر رشتۂ آزادگی
خود بخود کچھ ہم سے کَنیانے لگا
اس قدر بگڑا کہ سر کھانے لگا
میں کہا، اے دل، ہوائے دلبراں!
بس کہ تیرے حق میں رکھتی ہے زیاں
بیچ میں ان کے نہ آنا زینہار
یہ نہیں ہیں گے کِسے کے یارِ غار
گورے پنڈے پر نہ کر ان کے نظر
کھینچ لیتے ہیں یہ ڈورے ڈال کر
اب تو مِل جائے گی ان سے تیری گانٹھ
لیکن آخر کو پڑے گی ایسی سانٹھ
سخت مشکل ہوگا سلجھانا تجھے
قہر ہے، دل ان میں الجھانا تجھے
یہ جو محفل میں بڑھاتے ہیں تجھے
بھول مت اس پر اُڑاتے ہیں تجھے
ایک دن تجھ کو لڑا دیں گے کہیں
مفت میں ناحق کٹا دیں گے کہیں
دل نے سن کر۔ کانپ کر، کھا پیچ و تاب
غوطے میں جا کر، دیا کٹ کر جواب
رشتۂ در گردنم افگنده دوست
می بُرد ہر جا کہ خاطر خواهِ اوست
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *