نہ پوچھ حال اس انداز اس عتاب کے ساتھ
لبوں پہ جان بھی آجائے گی جواب کے ساتھ
مجھے بھی تاکہ تمنّا سے ہو نہ مایوسی
ملو رقیب سے لیکن ذرا حجاب کے ساتھ
نہ ہو بہ ہرزه روادارِ سعئ بے ہوده
کہ دورِ عیش ہے مانا خیال و خواب کے ساتھ
بہ ہر نمط غمِ دل باعثِ مسرّت ہے
نموئے حیرتِ دل ہے ترے شباب کے ساتھ
لگاو اس کا ہے باعث قیامِ مستی کا
ہَوا کو لاگ بھی ہے کچھ مگر حباب کے ساتھ
ہزار حیف کہ اتنا نہیں کوئ غالبؔ
کہ جاگنے کو ملا دے وے آکے خواب کے ساتھ