زمیں کا کرب فلک پر کبھی عیاں نہ ہوا

زمیں کا کرب فلک پر کبھی عیاں نہ ہوا
ہمارا درد کبھی زیبِ داستاں نہ ہوا
کسی بھی دوست نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی
’’ہمارے عشق کا چرچا کہاں کہاں نہ ہوا‘‘
یہ ہجر جان سے کم پر تو مانتا ہی نہیں
خدا کا شکر کہ تم پر یہ امتحاں نہ ہوا
عجب ہے درد کی وحشت اجاڑ دیتی ہے
تمھاری عمر کا لمحہ بھی بیکراں نہ ہوا
ربابؔ ہم نے تو چھیڑا تھا ساز کی لے کو
یہ اور بات کہ نغمہ وہ جاوداں نہ ہوا
فوزیہ ربابؔ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *