وہ مجھے بے وفا سمجھتا ہے

وہ مجھے بے وفا سمجھتا ہے
خیر میرا خدا سمجھتا ہے
باغ میں پھول دیکھنے والا
میری اک اک ادا سمجھتا ہے
جو سمجھتا ہے شعر گوئی کو
مجھ پہ رب کی عطا سمجھتا ہے
میں شکایت یوں ہی نہیں کرتی
وہ مجھے بے نوا سمجھتا ہے
وہ جلاتا ہے دیپ یادوں کے
میری آب و ہَوا سمجھتا ہے
ہاتھ اٹھاتی ہوں مانگتی نہیں ہوں
رب تو میری دعا سمجھتا ہے
فوزیہ ربابؔ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *