درد رخصت نہیں ہوا

درد رخصت نہیں ہوا کرتے
لوٹ جاتی ہے روح بھی واپس
ضبط رہتا نہیں سدا لیکن
درد رخصت نہیں ہوا کرتے
کون سی رات رات ہوتی ہے
کون سی بات بات ہوتی ہے
کون سے اشک اشک ہوتے ہیں
ایک دیوی، حسیں اداسی کی
من کے مندر میں آن بیٹھی ہے
اور آنکھوں میں عکس ہے اس کا
ہجر کی سانس تھم گئی ہوتی
تم کسی اور راہ سے آتے
ہم کوئی اور بات کر لیتے
یاد آنے میں اتنی دقت کیوں؟
پاس آنے میں یہ مسائل کیا؟
سنگ رہنا کوئی مصیبت کیوں؟
وسعتِ درد، وسعتِ راحت
رشتہِ ازدواج ہے ان میں
دونوں اجداد ہیں اداسی کے
درد تو موجہِ عبادت ہے
درد لہجے کی اک وضاحت ہے
درد گھڑیال، درد ساعت ہے
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *