آج دل کو بے قراری اور

آج دل کو بے قراری اور ہے
غم گساری، گریہ زاری اور ہے
پاؤں زخمی ہو گئے تو یہ کھُلا
راستوں کی بردباری اور ہے
آج شب تیری خوشی کے نام تھی
جو ترے غم میں گزاری اور ہے
برملا ہنسنا نجاتِ غم نہیں
شہرِ غم سے رستگاری اور ہے
درد کی مہماں نوازی اور تھی
ضبط کی تیمار داری اور ہے
اب یہاں بکھرا ہوا ہے اور کچھ
چار سُو پھیلی خماری اور ہے
آپ نے قصّہ سُنا ہے اور ہی
داستاں جو تھی ہماری اور ہے
اُسکا یوں دامن چھُڑا لینا نہیں!
زینؔ وجہ دل فگاری اور ہے
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *