اس کا ہو جاتا دل شکار اے کاش
زیر دیوار خانہ باغ اس کے
ہم کو جا ملتی خانہ وار اے کاش
کب تلک بے قرار رہیے گا
کچھ تو ملنے کا ہو قرار اے کاش
راہ تکتے تو پھٹ گئیں آنکھیں
اس کا کرتے نہ انتظار اے کاش
اس کی پامالی سرفرازی ہے
راہ میں ہو مری مزار اے کاش
پھول گل کچھ نہ تھے کھلی جب چشم
اور بھی رہتی اک بہار اے کاش
اب وہی میرؔ جی کھپانا ہے
ہم کو ہوتا نہ اس سے پیار اے کاش