رکھتے رہے بتوں سے مہر و وفا کی خواہش

رکھتے رہے بتوں سے مہر و وفا کی خواہش
اس آرزو نے مارا یہ بھی خدا کی خواہش
بیماری دلی پر میں صبر کر رہا ہوں
جی کو نہیں ہے میرے مطلق دوا کی خواہش
شب وصل کی میسر آئی نہ ایک دن بھی
دل کو یہی ہمارے اکثر رہا کی خواہش
چاہت بہت کسو کی اے ہمنشیں بری ہے
سو جان کی ہے کاہش اک اس ادا کی خواہش
مشتاق عاشقی کا عاقل کوئی نہ ہو گا
ابلہ کسو کو ہو گی اس بدب لا کی خواہش
عجز و انابت اپنی یوں ہی تھی صبح گہ کی
درویشوں سے کریں گے اب ہم دعا کی خواہش
حیران کار الفت اے میرؔ چپ ہوں میں تو
پوچھا کرو ہو ہر دم کیا بے نوا کی خواہش
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *