عشق کیا کیا آفتیں لاتا رہا

عشق کیا کیا آفتیں لاتا رہا
آخر اب دوری میں جی جاتا رہا
مہر و مہ گل پھول سب تھے پر ہمیں
چہرئی چہرہ ہی وہ بھاتا رہا
دل ہوا کب عشق کی رہ کا دلیل
میں تو خود گم ہی اسے پاتا رہا
منھ دکھاتا برسوں وہ خوش رو نہیں
چاہ کا یوں کب تلک ناتا رہا
کچھ نہ میں سمجھا جنون و عشق میں
دیر ناصح مجھ کو سمجھاتا رہا
داغ تھا جو سر پہ میرے شمع ساں
پاؤں تک مجھ کو وہی کھاتا رہا
کیسے کیسے رک گئے ہیں میرؔ ہم
مدتوں منھ تک جگر آتا رہا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *