کب لطف زبانی کچھ اس غنچہ دہن کا تھا

کب لطف زبانی کچھ اس غنچہ دہن کا تھا
برسوں ملے پر ہم سے صرفہ ہی سخن کا تھا
اسباب مہیا تھے سب مرنے ہی کے لیکن
اب تک نہ موئے ہم جو اندیشہ کفن کا تھا
بلبل کو موا پایا کل پھولوں کی دوکاں پر
اس مرغ کے بھی جی میں کیا شوق چمن کا تھا
بے ڈول قدم تیرا پڑتا تھا لڑکپن میں
رونا ہمیں اول ہی اس تیرے چلن کا تھا
مرغان قفس سارے تسبیح میں تھے گل کی
ہر چند کہ ہر اک کا ڈھلکا ہوا منکا تھا
سب سطح ہے پانی کا آئینے کا سا تختہ
دریا میں کہیں شاید عکس اس کے بدن کا تھا
خوگر نہیں ہم یوں ہی کچھ ریختہ کہنے سے
معشوق جو اپنا تھا باشندہ دکن کا تھا
بھوؤں تئیں تم جس دن سج نکلے تھے اک پیچہ
اس دن ہی تمھیں دیکھے ماتھا مرا ٹھنکا تھا
رہ میرؔ غریبانہ جاتا تھا چلا روتا
ہر گام گلہ لب پر یاران وطن کا تھا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *