ہم عشق میں نہ جانا غم ہی سدا رہے گا

ہم عشق میں نہ جانا غم ہی سدا رہے گا
دس دن جو ہے یہ مہلت سو یاں دہا رہے گا
برقع اٹھے پہ اس کے ہو گا جہان روشن
خورشید کا نکلنا کیونکر چھپا رہے گا
اک وہم سی رہی ہے اپنی نمود تن میں
آتے ہو اب تو آؤ پھر ہم میں کیا رہے گا
مذکور یار ہم سے مت ہم نشیں کیا کر
دل جو بجا نہیں ہے پھر اس میں جا رہے گا
اس گل بغیر جیسے ابر بہار عاشق
نالاں جدا رہے گا روتا جدا رہے گا
دانستہ ہے تغافل غم کہنا اس سے حاصل
تم درد دل کہو گے وہ سر جھکا رہے گا
اب جھمکی اس کی تم نے دیکھی کبھو جو یارو
برسوں تلک اسی میں پھر دل سدا رہے گا
کس کس کو میرؔ ان نے کہہ کر دیا ہے بوسہ
وہ ایک ہے مفتن یوں ہی چُما رہے گا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *