وہی دور ہو تو وہی پھر نہ آ تو
مرے اس کے وعدہ ملاقات کا ہے
کوئی روز اے عمر کیجو وفا تو
بہت پوچھیو دل کو میری طرف سے
اگر جائے اس کی گلی میں صبا تو
سفینہ مرا ورطۂ غم سے نکلے
جو ٹک ناخدائی کرے اے خدا تو
سب اسباب ہجراں میں مرنے ہی کے تھے
بھلا میرؔ کیونکر کے جیتا رہا تو