کیسا دل اور اس کے کیا غم جی

کیسا دل اور اس کے کیا غم جی
یونہی باتیں بناتے ہیں ہم جی
کیا بھلا آستین اور دامن
کب سے پلکیں بھی اب نہیں نم جی
اُس سے اب کوئی بات کیا کرنا
خود سے بھی بات کیجے کم کم جی
دل جو دل کیا تھا ایک محفل تھا
اب ہے درہم جی اور برہم جی
بات بے طَور ہو گئی شاید
زخم بھی اب نہیں ہیں مرہم جی
ہار دنیا سے مان لیں شاید
دل ہمارے میں اب نہیں دم جی
آپ سے دل کی بات کیسے کہوں
آپ ہی تو ہیں دل کے محرم جی
ہے یہ حسرت کہ ذبح ہو جاؤں
ہے شکن اس شکم کی ظالم جی
کیسے آخر نہ رنگ کھیلیں ہم
دل لہو ہو رہا ہے جانم جی
ہے خرابہ، حسینیہ اپنا
روز مجلس ہے اور ماتم جی
وقت دم بھر کا کھیل ہے اس میں
بیش از بیش ہے کم از کم جی
ہے ازل سے ابد تلک کا حساب
اور بس ایک پل ہے پیہم جی
بے شکن ہو گئی ہیں وہ زلفیں
اس گلی میں نہیں رہے خم جی
دشتِ دل کا غزال ہی نہ رہا
اب بھلا کس سے کیجیے رَم جی
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *