لَوحِ دائرہ

لَوحِ دائرہ
میں دائرے پر پڑا ہوا اپنے خوں کے دھبوں کو چاٹتا ہوں
کہ میرے ہونے کا سارا الزام میرے سر ہے
لبوں کی دہلیز پر مری روح کب سے فریاد کر رہی ہے
میں اپنے سینے میں جل رہا ہوں، میں اپنی آنکھوں میں بجھ رہا ہوں
یہ شاہراہوں کا حادثہ ہے مگر کسی کو خبر نہیں ہے
مجھے بچا لو، مجھے بچا لو
ہجومِ آدم جواب دے! کیا یہ کوئی صحرا ہے، شہر کی رہگزر نہیں ہے؟
میں پھر نہ آؤں گا، میری آواز پھر نہ آئے گی
میرا اثبات پھر نہ ٹکرائے گا تمہاری بطالتوں سے
مگر مرا بال بال مقروض ہے مرے جبرِ آگہی کا
میں اپنی آواز کا بدن ہوں
جو چپ ہے اسکی زبان اسکے دہن میں سڑ جائے گی
میں بولوں گا اور مرا بولنا ہی میرا زیاں بھی ٹھیرے گا
میرے سینے میں جو خراشیں سلگ رہی ہیں
وہ آخرِ کار میری لَوحِ مزار کا حاشیہ بنیں گی
جواب کی بستیوں کے دروازے بند ہیں اور مرا گلا خشک ہو چکا ہے
تمام انسان اپنی پرچھائیوں کو اوڑھے ہوۓ ہیں اور شام بہہ رہی ہے
دھند نے چوک کے بڑے بُرج کا مثلث نگل لِیا ہے
سکوت کا زمہریر سمتوں میں گھل چکا ہے
میں ایک سنگیں مجسمہ ہوں جسے بنا کر جسے خیاباں میں نصب کر کے
مجسمہ ساز اور معمار اپنا روزینہ پا چکے ہیں
میں ایک سنگیں مجّسمہ ہوں
جو دھند کی طیلسان اوڑھے ہوئے ہیولوں کو تَک رہا ہے
مگر سماعت کا جال اب جلد بُن لیا جائے
سُن لیا جائے
میرے اطراف ایک طوفان اُٹھنے والا ہے
جو زمینوں کو یوں نگل لے گا
جیسے یہ لوگ اپنے لوگوں کو خونِ بستہ نگل رہے ہیں
زمین جب اپنی گردشوں کا حساب دے گی تو مَیں کہوں گا
خدا کے لوگوں نے میرے لوگوں کا خون پی کر نجات پائی
میں اپنے سینے میں جل رہا ہوں، میں اپنی آنکھوں میں بجھ رہا ہوں
خون پینے دو مجھے، خون۔۔۔۔۔
گرم و گندم گوں جواں رانوں کا خون
نرم و نازک گول پستانوں کا خون
ہیں بہم پیوستہ تیری گندمی رانوں کے لب
ان لبوں کو اک شگافِ آتشیں درکار ہے
خون پینے دو۔۔۔۔۔ خون۔۔۔
جون ایلیا
(راموز)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *