ساحل کے ساتھ ساتھ ہوا بھی سفر میں ہے
پیروں میں اک زمانہِ معلوم ہے مگر
سر پر مرے خلا کا خلا بھی سفر میں ہے
رکتے نہیں کہیں بھی عبادت کے سلسلے
میں بھی سفر میں میرا خدا بھی سفر میں ہے
جاتا ہوں کربلا سے مدینے کی سمت میں
ہونٹوں کے ساتھ حرفِ دعا بھی سفر میں ہے
آئے گی آج عین یہاں پر تو کل وہاں
اے ساکنانِ ظلم قضا بھی سفر میں ہے
فرحت عباس شاہ