دیس

دیس
شامِ غریباں
میرے پیروں میں ان گنت بیڑیاں اور زنجیریں ڈال کے
مجھے کہاں گھسیٹتے جا رہے ہو
ہاتھ سر کے پیچھے کیوں باندھ دیئے ہیں
مجھے پہننے کو جوتے کیوں نہیں دیتے
ریت پہ پانی ہی چھڑک دیا ہوتا
کیا تمہارے تازیانے ابھی تھکے نہیں ہیں 
چھڑیاں دکھنے تو نہیں لگیں
تمہارے ہاتھ تو ٹھیک ہیں
لاؤ میں تمہارے لباس پہ پڑے ہوئے
اپنے خون کے دھبے صاف کردوں
تم ناراض مت ہونا
چھینٹے میری مرضی کے بغیر ہی اڑتے رہے ہیں
تم کہو تو میں پانی ہر گز نہیں مانگوں گا
اور نہ کچھ بولوں گا
لیکن اتنا تو بتا دو
میرے پیروں میں ان گنت بیڑیاں اور زنجیریں ڈال کے
مجھے کہاں گھسیٹتے جا رہے ہو
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *