زندگی کو یونہی زوال میں کیا

زندگی کو یونہی زوال میں کیا
کاٹ دو گے کسی ملال میں کیا
بے بصیرت ہیں لوگ کیا جانیں
دیکھتا ہوں ترے خیال میں کیا
کر رہے ہو نصیحتیں کیسی
عشق آئے گا اعتدال میں کیا
بولتے ہو عجیب لہجے میں
آگئے ہو کسی کی چال میں کیا
پھڑ پھڑاتے ہو وقفے وقفے سے
پھنس گئے ہو کسی کے جال میں کیا
جا رہے ہو جو اک مہینے کو
لوٹ آؤ گے ایک سال میں کیا
تیری خاطر ہی لوگ پوچھتے ہیں
ورنہ رکھا ہے اپنے حال میں کیا
روشنی پھیلتی گئی ہر سو
روپ آیا تھا خدوخال میں کیا
شہر کے عام آدمی کی طرح
آگئے تم بھی اشتعال میں کیا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – چاند پر زور نہیں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *