عذاب نصاب بنائے

عذاب نصاب بنائے
پہاڑی کے اس طرف
میں کتنا زخمی کتنا تھکا ہوا تھا
میں نے تھکن اوڑھی
زخم زیبِ تن کیے
عذاب نصاب بنائے
اور نئے خواب بسانے چل دیا
پرانے خواب ناسور بن گئے
گہرے اور پرانے
روشنیاں مُرجھا گئیں
دھوپ ماند پڑ گئی
سورج ناراض ہو گیا
اور چاند اجنبی
راتیں زیادہ لمبی ہو گئیں
اور شامیں زیادہ زرد
زردیاں
آہستہ آہستہ
آنکھوں سے وجود میں اتر گئیں
زردیاں آنکھوں میں
اور ویرانیاں روح میں
اُداسی ہمسفر ہوئی اور دکھ ہمراز ہوگئے
بارش ہوتی
دل اور سلگ اٹھتا
دھوپ نکلتی
سانسیں اور یخ ہو جاتیں
ساون دشمن ہو گئے
اور صحرا ساتھ آ لگے
اور لگ کے اندر اتر گئے
اور اندر اتر کے بس گئے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *