قید

قید
اپنے بختوں میں گھری ہوئی آزادی
آخر کسی قدر آزاد ہو سکتی ہے
یہ تو وہی بات ہوئی
رسی دراز کرنے والی
جس موڑ سے مڑ جانا تھا
ابھی تک نہیں آیا
ایک دائرے میں سفر کرتے ہوئے
اس طرح کا موڑ شاید آبھی نہیں سکتا
وقت کی پیمائش ممکن ہوتی
تو ہم اپنے اپنے وقت کا تعین کر لیتے
کلائیوں پر گھڑیاں باندھنے سے وقت گنتی میں نہیں آجاتا
بلکہ خود ہمیں ہماری پیمائش سے باندھ دیتا ہے
دروازوں کی بجائے دیواروں پر دستک دینے سے
ہم اپنے خوف کی آزادی کے ڈر سے محفوظ تو ہو جاتے ہیں
بچ نہیں جاتے
آنکھیں بند کرلینے سے بلائیں ٹلنے والی ہوتیں تو
اب تک ٹل چکی ہوتیں
چاہے آنکھیں کھلی رکھنے سے بھی
آج تک جتنی بلائیں سر سے ٹلی ہیں
یہ بھی وہی بات ہے
بالکل وہی
رسی دراز کرنے والی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس شامیں اجاڑ رستے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *