میں بہت خوبصورت ہوں

میں بہت خوبصورت ہوں
بے شمار خاموشیوں میں بٹی ہوئی
میں ایک آواز
جو پیچھے مڑ کر دیکھ نہیں سکتی
نا ہی پلٹ کر واپس آ سکتی ہے
تمام باتیں جو میں نے تم سے کرنا تھیں
تمام باتوں کے ہاتھ پاؤں تو پہلے ہی سن تھے
تمام باتیں لگتا ہے کہیں عین درمیان سے راستہ بھول جاتی ہیں
اگرچہ تمہارے کان بہت حسین ہیں
اور کانوں میں بندے
جیسے نور سے بنے ہوئے کانوں میں
کسی نے چھوٹے چھوٹے چاند لٹکا دیے ہوں
اور میرے لب
گویائی اور لمس سے محروم
لکڑیوں کی بھی آواز ہوتی ہے
اور یہ تو لکڑیاں بھی نہیں ہیں 
آنکھوں پر بہت سی پابندیاں ہوتی ہیں
اگرچہ صرف حیاء دار لوگوں کے لیے
میں آنکھوں سے باتیں نہیں کر سکتا
میرا وقار اور میری شان اور میرا حسن مجھے اجازت ہی نہیں دیتا
اور پھر حسن صرف ناک نقشہ ہی تو نہیں ہوتا
جب بہت دنوں کے بادلوں کے بعد
خوشگوار دھوپ نکلتی ہے
تو جواب میں میں بھی مسکرا دیتا ہوں
اور تھوڑا بہت ہنس دیتا ہوں
جب بہت زیادہ پھول کھلتے ہیں
بارشوں کی طرح رونے والے لوگ
کبھی کبھار ہی ہنسا کرتے ہیں
اور پھول بھی کونسا روز کھلتے ہیں میں تمہیں بہت ساری باتیں بتانا چاہتا ہوں
تمہیں پتہ ہے محبت نے
جس میں تمہاری محبت بھی شامل ہے
مجھے بہت زیادہ حسین و جمیل بنا دیا ہے
اور غم نے
جس میں تمہارا غم بھی شامل ہے
بہت زیادہ باوقار بنا دیا ہے
اور خوف نے
جس میں تمہارا خوف شامل نہیں ہے
اور جس پر میں غالب آ گیا ہوں
بہت زیادہ با رعب بنا دیا ہے
یہ سب مل کے مجھے بولنے نہیں دیتے
اور تمام باتوں سے چمٹ جاتے ہیں
تمہیں پتہ ہے جب میں سوچتا ہوں
تو کتنی روشنی پھیل جاتی ہے
اور تاریکیاں ڈر کر بھاگنے لگتی ہیں
اور لاعلمی اور بے خبری اور بے پرواہی
سہم جاتی ہے
اور تمہیں پتہ ہے میں محبت کے بارے میں سوچتا ہوں
اور امن کے بارے میں
اور خوبصورتی کے بارے میں سوچتا ہوں
میں خشک پتوں پر پاؤں نہیں رکھتا
اور نہ معصوم اور کمزور کیڑے مکوڑوں کو روندتا ہوا گزرتا ہوں
بے سہاروں کو اور مظلوموں کو ٹھوکریں نہیں مارتا
میرے پاؤں بہت حسین ہیں
میں کسی کو بھی کچل دینے کی خواہش نہیں رکھتا
سوائے ان کے جو دوسروں کو کچل دینے کی خواہش رکھتے ہیں
اور میری آنکھیں بہت اجلی
اور روح شفاف ہے
اور مجھے یقین ہے خدا مجھے پسند کرتا ہوگا
کیونکہ خدا مجھے بہت پسند ہے
اسی لیے پیغمبروں سے میرا پیار بڑھتا جا رہا ہے
وہ عظیم لوگ تھے
اور خوبصورت تھے
بلکہ وہ خوبصورتی سے بہت آگے تھے
اور بہت بلند
اور بہت گہرے اور وسیع و عریض
رات میرے لیے کسی عجیب سویرے کی مانند ہے
میں غور و فکر کرتا ہوں
اور اندھیرے مجھے راستہ دے دیتے ہیں
اور میرا دل مہک اٹھتا ہے
اور چاروں طرف خوشبو پھیل جاتی ہے
روشن اور چمکدار خوشبو
اور روح کی تاروں کو چھو لینے والی خوشبو
میں غور و فکر رکرتا ہوں
میرا دل آسمانوں کی طرح کھل جاتا ہے
اور شعر اترنے لگتے ہیں
سفید اور پاکیزہ پرندوں کی طرح
لطیف اور کومل
اور میں شعر کو پوری طرح محسوس کرتا ہوں
اور پھر نئے سرے سے زندہ ہو جاتا ہوں
گیت سنتا ہوں
انہیں چومتا ہوں
اور ان کے ساتھ دور دور تک گھومتا ہوں
اور اکثر گیتوں کو چھوتا ہو ں
اور درختوں کو ہیلو کہتا ہوں
درخت بھی گنگنانے لگتے ہیں
اور میرے حسن سے متاثر ہوتے ہیں
کبھی کبھی تو میں بھی گنگنانے لگتا ہوں
اردگرد بکھرے ہوئے انسانوں کا المیہ گیت
اور پھر شدت اور دیوانگی کے باعث گیت میں ڈھل جاتا ہوں
میں انسانوں کا ایک المیہ گیت ہوں
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میں خدا کا بھی المیہ گیت ہوں
اور انسانوں کی سماعتوں کی دیواروں سے ٹکراتا پھرتا ہوں
اور دن بدن نکھرتا جا رہا ہوں
میرا مسلسل صبر مجھے اور زیادہ سریلا اور دلگداز اور پر سوز بناتا جا رہا ہے
اور میں رنگین ہوتا جا رہا ہوں
کائنات کے ہلکے اور ملائم رنگ
مجھے سجاتے جا رہے ہیں
لیکن میں تم تک پہنچنا چاہتا ہوں
اور تمہاری نگاہ
اور تمہاری سماعت چومنا چاہتا ہوں
اور تمہیں اپنی نرم و گدازروح میں سمیٹنا چاہتا ہوں
میں، مختلف خاموشیوں میں بٹی ہوئی آواز
اور انسانوں کا
اور خدا کا المیہ گیت
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *