ہماری بے بسی تھی صرف آدھا جی سکے ورنہ

ہماری بے بسی تھی صرف آدھا جی سکے ورنہ
محبت کے لیے اک زندگی ہم اور لے آتے
یہ جیون تو کبھی کا کھل کے کھیلا جا چکا اور اب
تماشائی بنے آخر تلک میلے میں بیٹھے ہیں
محبت ہے اگر پیاسی تو کچھ دریا بھی ایسے ہیں
جنہیں ہم دیکھ بھی لیں تو بہت تسکین ملتی ہے
کبھی جب چاندنی شب میں ہم اس کے کھوج میں نکلے
ہوا اکثر کہ ایسے میں نظر واپس نہیں آئی
کسی کو یوں اچانک دیکھ لینے سے ہے وابستہ
وہ لرزش جو نگاہوں سے کہیں دل میں اترتی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – محبت گمشدہ میری)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *