ان کے مسکرانے پر سانس ڈول جاتی ہے

ان کے مسکرانے پر سانس ڈول جاتی ہے
اور یاد آنے پر سانس ڈول جاتی ہے
ان کی آنکھ سے نکلے تیر مار دیتے ہیں
ان کے ہر نشانے پر سانس ڈول جاتی ہے
چاند سا کوئی چہرہ بام پر اترتا ہے
جس کے لوٹ جانے پر سانس ڈول جاتی ہے
آرزو تو آ ٹھہری آبرو کے زنداں میں
آرزو دکھانے پر سانس ڈول جاتی ہے
شہر کو سنا کر تو کچھ اثر نہیں ہوتا
اک تجھے سنانے پر سانس ڈول جاتی ہے
اب ربابؔ سوچا تھا تجھ سے کچھ نہیں کہنا
پھر بھی تیرے آنے پر سانس ڈول جاتی ہے
فوزیہ ربابؔ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *