پتھر تلے سانس

پتھر تلے سانس
رائیگاں پل
یہاں کس قدر بوجھ ہیں
سر اٹھے تو کہوں
تھرتھراتے ہیں معصوم جذبوں کے دیوار و در
کرب ہلتا نہیں
بے قراری کی شوریدہ سر سوئیاں
خواب در خواب دھاگے پرو ڈالتی ہیں مگر
زخم سلتا نہیں
اور قسم ہے مجھے اپنے پیمان کی
جس کو احساس کی نرم گرہوں سے باندھے ہوئے پھر رہا ہوں
ترے لمس کی یاد
پوریں کہیں رکھ کے بھولے تو بھولے
سمے اپنے چرکے لگانا نہیں بھولتا
روز و شب
جو دریدہ نشانات گننے کی خاطر
خود اک دوسرے کا تعاقب کیے جا رہے ہیں
کبھی اپنی ہٹ دھرمیوں سے ہٹیں تو کہوں
اور یہ بے چینیوں کے تسلسل کی زنجیر
جو موسموں کے گلے پڑ چکی ہے
یہ ٹوٹے
یہ دکھ کوئی قصہ کہے تو کہوں
انگلیاں لب ہلائیں
قلم کچھ لکھے تو کہوں
رائیگاں پل یہاں کس قدر بوجھ ہیں
سَر اُٹھے تو کہوں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *