چاہتوں کے سفیر لوٹ گئے

چاہتوں کے سفیر لوٹ گئے
تیرے غم کے اسیر لوٹ گئے
راستے ہو گئے بہت خالی
آج سب راہ گیر لوٹ گئے
معجزہ ہو گیا کوئی ظاہر
راستے ہی سے تیر لوٹ گئے
جھنگ بالکل ہی ہو گیا ویراں
دل فدایانِ ہیر لوٹ گئے
آج ہی تو مجھے ضرورت تھی
آج کیوں میرے ویر لوٹ گئے
ضد نہیں کی ترے خیالوں نے
خامشی سے شریر لوٹ گئے
اس کی بد بختیوں کے دن آئے
جس کے در سے فقیر لوٹ گئے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اک بار کہو تم میرے ہو)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *