کوئی لے چلا

کوئی لے چلا
کوئی لے چلا، کوئی لے چلا
مجھے میری ناف سے باندھ کر کوئی لے چلا
مری ناف سے مری روح تک
مجھے لذتوں سے فرار بھی ہے قرار بھی
مرا خوف نفس کی سینہ زوری سے ہار کر
کہیں آس پاس دُبک گیا، کہیں دور مجھ سے بہت ہی دور چلا گیا
کوئی پھول آسا بدن پسینے کی خوشبوؤں سے اٹا ہوا
مجھے موتیے کی ہوا سے باند ھ کے شبنموں کے کسی کنویں میں گرا گیا
مرے ارد گرد عجیب میٹھی پھوار ہے
مرا دل پھوار کی ضوفشانی کی آبجو میں بہا گیا
کوئی پھول آسا بدن، خیال کی چاندنی سے سجا ہوا
کوئی پھول آسا بدن
دھنک کے کنوار پن میں ڈھلا ہوا
کوئی پھول آسا بدن
ستار میں گنگناتے ہوئے سروں سے بنا ہوا
مجھے لے چلا، مجھے لے چلا
مری ناف میرا ثواب بھی ہے گناہ بھی
مری ناف میرا فریب بھی ہے پناہ بھی
مری ناف میری گواہ بھی
تجھے کیا ملے گا مرے جمال کو مار کر
یہ مرا وصال عبادتوں میں شمار کر
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *