آرزو لکھنوی
بن گیا قطرۂ ناچیز ترقی سے گہر
بن گیا قطرۂ ناچیز ترقی سے گہر ذات ہے ایک فقط نام کی تبدیلی ہے آرزو لکھنوی
حد سے ٹکراتی ہے جو شے وہ پلٹتی ہے ضرور
حد سے ٹکراتی ہے جو شے وہ پلٹتی ہے ضرور خود بھی روئیں گے غریبوں کو رلانے والے آرزو لکھنوی
محبت نیک و بد کو سوچنے دے غیر ممکن ہے
محبت نیک و بد کو سوچنے دے غیر ممکن ہے بڑھی جب بے خودی پھر کون ڈرتا ہے گناہوں سے آرزو لکھنوی
پانی میں آگ دھیان سے تیرے بھڑک گئی
پانی میں آگ دھیان سے تیرے بھڑک گئی آنسو میں کوندتی ہوئی بجلی جھلک گئی کب تک یہ جھوٹی آس کہ اب آئے وہ اب…
جو گل کو گل نہ سمجھو گے تو کانٹوں ہی میں
جو گل کو گل نہ سمجھو گے تو کانٹوں ہی میں الجھو گے نہ دو اپنے کو دھوکا آپ ہو کر بد گماں مجھ سے…
ملی ہے اس لیے دو چار دن کی آزادی
ملی ہے اس لیے دو چار دن کی آزادی کہ صرف کرتا ہے دیکھیں یہ اختیار کہاں آرزو لکھنوی
بہت جلدی نہ کر اے چشم تر کچھ دیر کو دم لے
بہت جلدی نہ کر اے چشم تر کچھ دیر کو دم لے بیاں کرنا وہ تو رہ جائے جتنی داستاں مجھ سے آرزو لکھنوی
چپ ہے شکوؤں کی ایک بند کتاب
چپ ہے شکوؤں کی ایک بند کتاب اس سے کہنے کا ڈھب نہیں آتا آرزو لکھنوی
کوئی قتال صورت دیکھ لی مرنے لگے اس پر
کوئی قتال صورت دیکھ لی مرنے لگے اس پر یہ موت اک خوشنما پردے میں آئی یا شباب آیا آرزو لکھنوی
پلا دو زہر غم دل کو نہ چھوڑے گر ہوس کاری
پلا دو زہر غم دل کو نہ چھوڑے گر ہوس کاری گنہ وہ ایک اچھا جو بچا لے سو گناہوں سے آرزو لکھنوی
حسن ہے مشغلۂ ظلم کو گہرا پردہ
حسن ہے مشغلۂ ظلم کو گہرا پردہ پس پردہ ہے اندھیرا مجھے معلوم نہ تھا آرزو لکھنوی
ہر سانس ہے اک نغمہ ہر نغمہ ہے مستانہ
ہر سانس ہے اک نغمہ ہر نغمہ ہے مستانہ کس درجہ دکھے دل کا رنگین ہے افسانہ جو کچھ تھا نہ کہنے کا سب کہہ…
اے مرے زخم دل نواز غم کو خوشی بنائے جا
اے مرے زخم دل نواز غم کو خوشی بنائے جا آنکھوں سے خوں بہائے جا ہونٹوں سے مسکرائے جا جانے سے پہلے بے وفا شب…
جو خوشی ہے فانی تو ہے غم بھی فانی
جو خوشی ہے فانی تو ہے غم بھی فانی نہ یہ جاودانی نہ وہ جاودانی آرزو لکھنوی
ہلکا تھا ندامت سے سرمایہ عبادت کا_
ہلکا تھا ندامت سے سرمایہ عبادت کا اک قطرے میں بہہ نکلے تسبیح کے سو دانے آرزو لکھنوی
تڑپتے دل کو نہ لے اضطراب لیتا جا
تڑپتے دل کو نہ لے اضطراب لیتا جا پٹک دے ساغر خالی شراب لیتا جا وہ ہاتھ مار پلٹ کر جو کر دے کام تمام…
خموشی میری معنی خیز تھی اے آرزو کتنی
خموشی میری معنی خیز تھی اے آرزو کتنی کہ جس نے جیسا چاہا ویسا افسانہ بنا ڈالا آرزو لکھنوی
ن راتوں میں نیند اڑ جاتی ہے کیا قہر کی راتیں
ن راتوں میں نیند اڑ جاتی ہے کیا قہر کی راتیں ہوتی ہیں دروازوں سے ٹکرا جاتے ہیں دیواروں سے باتیں ہوتی ہیں آشوب جدائی…
پلٹ دو بات نہ لو منہ سے نام رخصت کا
پلٹ دو بات نہ لو منہ سے نام رخصت کا ابھی سے گھر نظر آنے لگا اداس مجھے آرزو لکھنوی
روئیں گے گر تو جگ ہنسائی ہو
روئیں گے گر تو جگ ہنسائی ہو کرتے کیا چپ سے ہو گئے ہم بھی آرزو لکھنوی
وعدہ سچا ہے کہ جھوٹا مجھے معلوم نہ تھا
وعدہ سچا ہے کہ جھوٹا مجھے معلوم نہ تھا کل بدل جائے گی دنیا مجھے معلوم نہ تھا حسن ہے مشغلۂ ظلم کو گہرا پردہ…
پھیل گئی بالوں میں سپیدی چونک ذرا کروٹ تو
پھیل گئی بالوں میں سپیدی چونک ذرا کروٹ تو بدل شام سے غافل سونے والے دیکھ تو کتنی رات رہی آرزو لکھنوی
وہ اٹھیں گے طوفاں کہ خدا بچائے
وہ اٹھیں گے طوفاں کہ خدا بچائے یہ نئے نظارے یہ بھری جوانی آرزو لکھنوی
تقدیر پہ شاکر رہ کر بھی یہ کون کہے تدبیر نہ
تقدیر پہ شاکر رہ کر بھی یہ کون کہے تدبیر نہ کر وا باب اجابت ہو کہ نہ ہو زنجیر ہلا تاخیر نہ کر آرزو…
روح نکل کر باغ جہاں سے باغ جناں میں جا پہنچے
روح نکل کر باغ جہاں سے باغ جناں میں جا پہنچے چہرے پہ اپنے میری نگاہیں اتنی دیر تو رہنے دو آرزو لکھنوی
وہ بن ہی گھر سے ہے اچھا سکون جس میں ملے
وہ بن ہی گھر سے ہے اچھا سکون جس میں ملے مجھے بھی او دل خانہ خراب لیتا جا آرزو لکھنوی
اٹھ کھڑا ہو تو بگولا ہے جو بیٹھے تو غبار
اٹھ کھڑا ہو تو بگولا ہے جو بیٹھے تو غبار خاک ہو کر بھی وہی شان ہے دیوانے کی آرزو لکھنوی
تو کہتا ہے خالق شر و خیر نہیں
تو کہتا ہے خالق شر و خیر نہیں میں کہتا ہوں خالی حرم و دیر نہیں سچ ہے ترا کہنا تو مجھے کچھ نہیں خوف…
سبھی شکوے مٹتے ہیں چشم کرم سے
سبھی شکوے مٹتے ہیں چشم کرم سے مرض ہوں ہزاروں دوا ایک ہی ہے آرزو لکھنوی
وہ ٹل نہیں سکتی جو پہنچنے کی گھڑی ہے
وہ ٹل نہیں سکتی جو پہنچنے کی گھڑی ہے چلتا رہے گلیوں میں کہ بیٹھا رہے گھر میں آرزو لکھنوی
آرزو اس سے کہہ دو صاف غم کا اثر ہے دیر پا
آرزو اس سے کہہ دو صاف غم کا اثر ہے دیر پا جلد ہنسی نہ آئے گی اور ابھی گدگدائے جا آرزو لکھنوی
جب تک تکلیف دل نہیں پاتا ہے
جب تک تکلیف دل نہیں پاتا ہے کیا کیا مانگوں سمجھ میں کب آتا ہے میں اپنی ضرورتوں کے احساس میں گم اور تو ہے…
کب تک یہ جھوٹی آس کہ اب آئے وہ اب آئے
کب تک یہ جھوٹی آس کہ اب آئے وہ اب آئے پلکیں جھکیں پپوٹے تنے آنکھ تھک گئی آرزو لکھنوی
وہ بن کر بے زباں لینے کو بیٹھے ہیں زباں مجھ
وہ بن کر بے زباں لینے کو بیٹھے ہیں زباں مجھ سے کہ خود کہتے نہیں کچھ اور کہلواتے ہیں ہاں مجھ سے بہت کچھ…
افسانہ غم دل کا سننے کے نہیں قابل
افسانہ غم دل کا سننے کے نہیں قابل کہہ دیتے ہیں سب ہنس کر دیوانہ ہے دیوانہ آرزو لکھنوی
جب وہ نہیں ہوتے پہلو میں اور لمبی راتیں ہوتی
جب وہ نہیں ہوتے پہلو میں اور لمبی راتیں ہوتی ہیں یاد آ کے ستاتی رہتی ہے اور دل سے باتیں ہوتی ہیں آرزو لکھنوی
کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی
کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی جھوم کر آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی آرزو لکھنوی
وہ سر بام کب نہیں آتا
وہ سر بام کب نہیں آتا جب میں ہوتا ہوں تب نہیں آتا بہر تسکیں وہ کب نہیں آتا اعتبار آہ اب نہیں آتا چپ…
امید دل کی فطرت ہے بے نیاز تسکیں
امید دل کی فطرت ہے بے نیاز تسکیں کم ہو نہ بے قراری آئے اگر یقیں بھی آرزو لکھنوی
جب سکھ نہیں جینے میں تو اک روگ ہے جینا
جب سکھ نہیں جینے میں تو اک روگ ہے جینا سانس آئی ہے جب چوٹ کلیجے میں لگی ہے آرزو لکھنوی
کہتا ہے ناصح کہ واپس جاؤ اور میں سادہ لوح
کہتا ہے ناصح کہ واپس جاؤ اور میں سادہ لوح پوچھتا ہوں خود اسی سے کوئے قاتل کا پتا آرزو لکھنوی
یوں دور دور دل سے ہو ہو کے دل نشیں بھی
یوں دور دور دل سے ہو ہو کے دل نشیں بھی ہیں تو اسی جہاں میں ملتے نہیں کہیں بھی کم ایک قبر سے ہے…
آرام کے تھے ساتھی کیا کیا جب وقت پڑا تو کوئی
آرام کے تھے ساتھی کیا کیا جب وقت پڑا تو کوئی نہیں سب دوست ہیں اپنے مطلب کے دنیا میں کسی کا کوئی نہیں آرزو…
جو بت ہے یہاں اپنی جا ایک ہی ہے
جو بت ہے یہاں اپنی جا ایک ہی ہے دوئی چھوڑ بندے خدا ایک ہی ہے یہ گل کھل رہا ہے وہ مرجھا رہا ہے…
گنوا کے دل سا گہر درد سر خرید لیا – 1
گنوا کے دل سا گہر درد سر خرید لیا بہت گراں تھا یہ سودا مگر خرید لیا امین عشق نے دل بے خطر خرید لیا…
یہ نگاہ ترچھی یہ بل ابروؤں کا
یہ نگاہ ترچھی یہ بل ابروؤں کا ہر ادا ہے دل کش مگر امتحانی آرزو لکھنوی
آنکھ سے دل میں آنے والا
آنکھ سے دل میں آنے والا دل سے نہیں اب جانے والا گھر کو پھونک کے جانے والا پھر کے نہیں ہے آنے والا دوست…
جس کو تم لا دوا بتاتے تھے
جس کو تم لا دوا بتاتے تھے تمہیں اس درد کی دوا ٹھہرے آرزو لکھنوی
گنوا کے دل سا گہر درد سر خرید لیا
گنوا کے دل سا گہر درد سر خرید لیا بہت گراں تھا یہ سودا مگر خرید لیا آرزو لکھنوی