آتش بہاولپوری
اس نئے دور کی تہذیب سے اللہ بچائے
اس نئے دور کی تہذیب سے اللہ بچائے مسخ ہوتی نظر آتی ہے بشر کی صورت آتش بہاولپوری
یہ ساری باتیں ہیں درحقیقت ہمارے اخلاق کے
یہ ساری باتیں ہیں درحقیقت ہمارے اخلاق کے منافی سنیں برائی نہ ہم کسی کی نہ خود کسی کو برا کہیں ہم آتش بہاولپوری
خموش بیٹھے ہو کیوں ساز بے صدا کی طرح
خموش بیٹھے ہو کیوں ساز بے صدا کی طرح کوئی پیام تو دو رمز آشنا کی طرح کہیں تمہاری روش خار و گل پہ بار…
یوں کسی سے اپنے غم کی داستاں کہتا نہیں
یوں کسی سے اپنے غم کی داستاں کہتا نہیں پوچھتے ہیں وہ تو پھر مجبور ہو جاتا ہوں میں آتش بہاولپوری
اپنے چہرے سے جو زلفوں کو ہٹایا اس نے
اپنے چہرے سے جو زلفوں کو ہٹایا اس نے دیکھ لی شام نے تابندہ سحر کی صورت آتش بہاولپوری
یہ مے خانہ ہے مے خانہ تقدس اس کا لازم ہے
یہ مے خانہ ہے مے خانہ تقدس اس کا لازم ہے یہاں جو بھی قدم رکھنا ہمیشہ با وضو رکھنا آتش بہاولپوری
رواں دریا ہیں انسانی لہو کے
رواں دریا ہیں انسانی لہو کے مگر پانی کی قلت ہو گئی ہے آتش بہاولپوری
زباں پہ شکوۂ بے مہریٔ خدا کیوں ہے_
زباں پہ شکوۂ بے مہریٔ خدا کیوں ہے دعا تو مانگیے آتش کبھی دعا کی طرح آتش بہاولپوری
زندگی گزری مری خشک شجر کی صورت
زندگی گزری مری خشک شجر کی صورت میں نے دیکھی نہ کبھی برگ و ثمر کی صورت خوب جی بھر کے رلائیں جو نظر میں…
زباں پہ شکوۂ بے مہرئی خدا کیوں ہے
زباں پہ شکوۂ بے مہرئی خدا کیوں ہے دعا تو مانگیے آتش کبھی دعا کی طرح آتش بہاولپوری
خوگر لذت آزار تھا اتنا آتش
خوگر لذت آزار تھا اتنا آتش درد بھی مانگا تو پہلے سے سوا مانگا تھا آتش بہاولپوری
ستم کو ان کا کرم کہیں ہم جفا کو مہر و وفا
ستم کو ان کا کرم کہیں ہم جفا کو مہر و وفا کہیں ہم زمانہ اس بات پر بضد ہے کہ ناروا کو روا کہیں…
مجھے ان سے محبت ہو گئی ہے
مجھے ان سے محبت ہو گئی ہے میری بھی کوئی قیمت ہو گئی ہے وہ جب سے ملتفت مجھ سے ہوئے ہیں یہ دنیا خوب…
کمال حسن کا جس سے تمہیں خزانہ ملا
کمال حسن کا جس سے تمہیں خزانہ ملا مجھے اسی سے یہ انداز عاشقانہ ملا جبین شوق کو آسودگی نصیب ہوئی سر نیاز کو جب…
غم و الم بھی ہیں تم سے خوشی بھی تم سے ہے
غم و الم بھی ہیں تم سے خوشی بھی تم سے ہے نوائے سوز میں تم ہو صدائے ساز میں تم آتش بہاولپوری
مجھ کو آتش بادہ و ساغر سے ہو کیا واسطہ
مجھ کو آتش بادہ و ساغر سے ہو کیا واسطہ ان کی آنکھیں دیکھ کر مخمور ہو جاتا ہوں میں آتش بہاولپوری
نیاز و عجز ہی معراج آدمیت ہیں
نیاز و عجز ہی معراج آدمیت ہیں بڑھاؤ دست سخاوت بھی التجا کی طرح آتش بہاولپوری
آپ کی ہستی میں ہی مستور ہو جاتا ہوں میں
آپ کی ہستی میں ہی مستور ہو جاتا ہوں میں جب قریب آتے ہو خود سے دور ہو جاتا ہوں میں دار پر چڑھ کر…
حرف شکوہ نہ لب پہ لاؤ تم
حرف شکوہ نہ لب پہ لاؤ تم زخم کھا کر بھی مسکراؤ تم اپنے حق کے لیے لڑو بے شک دوسروں کا نہ حق دباؤ…
وہ میرے قلب کو چھیدے گا کب گمان میں تھا
وہ میرے قلب کو چھیدے گا کب گمان میں تھا جو ایک تیر مرے دوست کی کمان میں تھا وہ زیر سایۂ الطاف باغبان میں…