کوئی نوا کوئی نغمہ کوئی فغاں سنتے
قدم نہ چھوڑتے راہوں کو تا بہ منزل شوق
ہماری بات جو یہ اہل کارواں سنتے
ترے قلم سے تو گلزار بے نوا کا قفس
تری زباں سے بھی کچھ حال بے زباں سنتے
ہمارے درد کا طوفاں کہاں کہاں نہ اٹھا
یہ شور آپ جہاں چاہتے وہاں سنتے
اک عمر اپنی بھی گزری ہے اے چمن والو
گلوں کے کنج میں اندیشۂ خزاں سنتے
کسی کا رنج کسی کا الم کسی کا ملال
اب اور کیا تھا جو ہم زیر آسماں سنتے
گلوں سے بچ کے چلے بلبلوں سے کترائے
وہ میرا قصۂ خونیں کہاں کہاں سنتے
کچھ اس میں اپنا بھی سوز بیاں تھا اے جذبی
وگرنہ لوگ کب افسانۂ جہاں سنتے
معین احسن جذبی