خیالِ قرب کی نظروں میں گھومتا اک جسم
یہ اہلِ شوق سبھی منہ چھپائے پھرتے ہیں
ہے ان کے شوق کے باطن کا آئنہ اک جسم
نہ چاہتے ہوئے پھر بھی تو ہو رہا مائل
کہ مجھ کو اپنی طرف کیوں ہے کھینچتا اک جسم
ترے خیال میں اس کو ہوس کہیں گے میاں؟
میں اک کے بعد اگر مانگوں دوسرا اک جسم
بغیر سوچے میں دے دوں تجھے یہ کرۂ ارض
تو گر نواز دے کوئی بھی مَن چلا اک جسم
زہے نصیب کہ میرا نصیب ہے اک جسم
مرا نصیب بھی کیا خوب کہ ترا اک جسم
تمہارے عشق کی ہو ابتدا تقدس سے
مگر یقین سے کہتا ہوں انتہا اک جسم
وہ جسم آج تہِ خاک جا چکا ہے وقارؔ
اوراُس کے ہجر میں خود کو گنوا چکا اک جسم
*
ہم جو مل جاتے ہیں آسانی سے
لوگ کہتے ہیں کہ بیکار ہیں ہم