آگ سینے میں حسد کی پل رہی ہے یا نہیں
آپ کو شہرت ہماری کھل رہی ہے یا نہیں
آپسی رنجش ہی دِل کو دَل رہی ہے یا نہیں
دشمنوں کی دال ہر سو گل رہی ہے یا نہیں
نفرتوں کی آندھیاں چلتی رہیں ہر دور میں
چاہتوں کی شمع پھر بھی جل رہی ہے یا نہیں
کارگاہِ زیست میں دکھلا کے ہم کو سبز باغ
اے حسیں دنیا ہمیں تو چھل رہی ہے یا نہیں
زندہ رہنے کے لیے کیا کیا نہیں کرتا کوئی
زندگی کی شام لیکن ڈھل رہی ہے یا نہیں
اے مِری چاہت کی نگری دل پہ رکھ کر ہاتھ دیکھ
مجھ کو کھو کر ہاتھ اپنے مل رہی ہے یا نہیں
چاہتوں کی جھیل میں فرقت کے پتھر پھینک کر
پوچھتے ہو مجھ سے تم ہلچل رہی ہے یا نہیں
میری چشمِ شوق اُن کی دید کی حسرت لیے
کاش وہ بھی جانتے جل تھل رہی ہے یا نہیں
میں تو پاگل ہوں تری چاہت میں تیرے پیار میں
زندگی مجھ پر بھی تو پاگل رہی ہے یا نہیں
کشتیِ دل پار اُتری یا نہیں راغبؔ مری
خواہشوں کی ہر طرف دلدل رہی ہے یا نہیں
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: خیال چہرہ