ہم وہ نہیں ہیں ساقی کہ جب مانگیں تب ملے
فریاد ہی میں عہد بہاراں گزر گیا
ایسے کھلے کہ پھر نہ کبھی لب سے لب ملے
ہم یہ سمجھ رہے تھے ہمیں بد نصیب ہیں
دیکھا تو مے کدے میں بہت تشنہ لب ملے
کس نے وفا کا ہم کو وفا سے دیا جواب
اس راستے میں لوٹنے والے ہی سب ملے
ملتے ہیں سب کسی نہ کسی مدعا کے ساتھ
ارمان ہی رہا کہ کوئی بے سبب ملے
رکھا کہاں ہے عشق نے عاجز کو ہوش میں
مت چھیڑیو اگر کہیں وہ بے ادب ملے
کلیم عاجز