ابھی دل میں خدا رکھے کسی کی یاد باقی ہے
سر منزل فریب رہنما کا توڑ مشکل تھا
غنیمت ہے کہ شوق مرحلہ ایجاد باقی ہے
ہنسی آتی ہے تیرے اس غرور دام داری پر
کوئی پھندا بھی ثابت آج اے صیاد باقی ہے
سحر نے آ کے چہرہ وقت کا دھویا تو کیا دھویا
فضاؤں پر غبار خاطر ناشاد باقی ہے
تباہی گھیرنے والی تھی آخر کن سفینوں کو
تہ گرداب شور ہر چہ بادا باد باقی ہے
ابھی سے بندھ گئی ہچکی چمن افروز کلیوں کی
ابھی تو داستان نگہت برباد باقی ہے
زبان وقت کل سے اک نیا افسانہ چھیڑے گی
بہت تھوڑی سی یعقوب آج کی روداد باقی ہے
یعقوب عثمانی