وہ عورت ذات تھی
اس میں وفا کے سب عناصر پائے جاتے تھے
وہ بیٹی تھی محبت کی
اسے چاہت سوا اب اور آتا ہی نہیں تھا کچھ
وہ لڑکی تھی وہ بھاگوں والی لڑکی تھی
دعا سی تھی، عطا سی تھی،
ارادت کی فضا سی تھی،
اسے آسودگی کی چاہ تھی لیکن
اسے آسودگی نہ مل سکی تھی
اور پھر وہ دور جا نکلی کہیں تنہا
اکیلی اور بہت بے چین
بوسیدہ سے رستوں پر سفر کرتی
تھکن اوڑھے ہوئے پچھلے سفر کی
اک کنارا پار کر کے دوسری جانب
وہ پژ مردہ
وہ عورت ذات
وہ بیٹی
ہوا ئے سرد کے بپھرے ہوئے اندھے بہاؤ سے
اب اس سے اور زیادہ لڑ نہیں پائی
وہ جیسے کانچ کی ٹوٹی ہوئی اک آہ
جیسے بجھنے والی آخری شمع کی حسرت
یا کسی مجبور رستے کی مسافت تھی
کہ جس میں بے کلی کا ربط بھی ویسا ہی تھا
جیسا ہے اب مجھ میں!
اور اس میں سادگی کے سب مناظر پائے جاتے تھے
وہ عورت ذات تھی
اس میں وفا کے سب عناصر پائے جاتے تھے
زین شکیل