اُداس رستے ہیں زندگی کے
قدم قدم پر ملالِ ماضی
یہ یادِ ماضی یا حافظے کا ملال یا پھر
عجب عب سی اُداس و پُر غم حکایتوں کا جمود ہے جو
کھڑا ہوا ہے فراقِ یاراں کے بازوؤں میں
پسارے بازو
میں جانتا ہوں کئی شبیں ہیں
تجھے اے رضوان کاٹتی ہیں
جو ناگ بن کر
بڑی کٹھن ہیں۔۔۔ میں جانتا ہوں
ترے لیے صرف میرے لب پر دعا سجی ہے
طویل، لمبی حیات و خوشیوں کی مختصر سی حسیں دعا ہے
خدا کرے کہ تجھے دکھوں کی ہوا بھی دیکھے
تو رُخ بدل لے
خدا کرے کہ تجھے عطا ہو
سکوں ہمیشہ کے واسطے ہی
اور آبرو کا جہاں سدا ہی کھلا رہے اور
تری تمنا، مراد اور آرزو تمامی
خدا کے سوہنے نبیﷺ کے صدقے میں سُرخرو ہو
اے دوست رضوان!
یہ جنم دن تجھے مبارک
ترا جنم دن تجھے مبارک
زین شکیل