چلو اداسی کے پار

چلو اداسی کے پار جائیں
بکھر رہا ہے خیال کوئی
سوال کوئی، ملال کوئی
کہاں کسی کی؟ مجال کوئی!
کہ آنکھ جھپکے
ترے تصور سے دور جائے
مگر یہ ضد کہ ضرور جائے
تمہارے غم میںسسک سسک کر
اکھڑ چکی ہےطناب غم کی
مگر کسی کی مجال کیا ہے
کہ روک پائے!
یہ سلسلہ ہائے روز و شب
اور اداس رستہ!
اداسیوں کے شجر بھی دیکھو
کہ گاہے گاہے اُگے ہوئے ہیں
تو آؤ اپنی نگاہِ پرنم
سے آب دے کر
نمو بڑھائیں اداسیوں کی!
کسی کو روکیں، کسی سے روٹھیں
کسے منائیں؟
کسے منا کر گلے لگائیں؟
کبھی ملو نا کہ مسکرائیں!
جو آگئے ہو تو کیا ٹھہرنا
چلو اداسی کے پار جائیں!
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *