خون کسو کا کوئی کرے واں داد نہیں فریاد نہیں
یاری ہماری یک باری خاطر سے فراموش ان نے کی
ذکر ہمارا اس سے کیا سو کہنے لگا کچھ یاد نہیں
کیا کیا مردم خوش ظاہر ہیں عالم حسن میں نام خدا
عالم عشق خرابہ ہے واں کوئی گھر آباد نہیں
عشق کوئی ہمدرد کہیں مدت میں پیدا کرتا ہے
کوہ رہیں گو نالاں برسوں لیکن اب فرہاد نہیں
لڑنا کاواکی سے فلک کا پیش پا افتادہ ہے
میرؔ طلسم غبار جو یہ ہے کچھ اس کی بنیاد نہیں