ماہ تمام یارو کیا ناتمام نکلا
ہو گوشہ گیر شہرت مد نظر اگر ہے
عنقا کی طرح اپنا عزلت سے نام نکلا
تھا جن کو عاشقی میں دعوائے پختہ مغزی
سودا انھوں کا آخر دیکھا تو خام نکلا
نومید قیس پایا ناکام کوہکن کو
اس عشق فتنہ گر سے وہ کس کا کام نکلا
کیونکر نہ مر رہے جو بیتاب میرؔ سا ہو
ایک آدھ دن تو گھر سے دل تھام تھام نکلا