جیسا گیا تھا ویسا ہی چل پھر کے آ گیا
دیکھا ہو کچھ اس آمد و شد میں تو میں کہوں
خود گم ہوا ہوں بات کی تہ اب جو پا گیا
کپڑے گلے کے میرے نہ ہوں آبدیدہ کیوں
مانند ابر دیدۂ تر اب تو چھا گیا
جاں سوز آہ و نالہ سمجھتا نہیں ہوں میں
یک شعلہ میرے دل سے اٹھا تھا جلا گیا
وہ مجھ سے بھاگتا ہی پھرا کبر و ناز سے
جوں جوں نیاز کر کے میں اس سے لگا گیا
جور سپہر دوں سے برا حال تھا بہت
میں شرم ناکسی سے زمیں میں سما گیا
دیکھا جو راہ جاتے تبختر کے ساتھ اسے
پھر مجھ شکستہ پا سے نہ اک دم رہا گیا
بیٹھا تو بوریے کے تئیں سر پہ رکھ کے میرؔ
صف کس ادب سے ہم فقرا کی اٹھا گیا