ہم تو یہی کہتے تھے ہمیشہ دل کو کہیں نہ لگاؤ تم

ہم تو یہی کہتے تھے ہمیشہ دل کو کہیں نہ لگاؤ تم
کیا کہیے نہ ہماری سنی اب بیٹھے رنج اٹھاؤ تم
جھوٹ کہا کیا ہم نے اس میں طور جو اس سے ظاہر ہے
ہاتھ چلے تو عاشق زار کو خاک و خوں میں لٹاؤ تم
صبر کرو بیتاب رہو خاموش پھرو یا شور کرو
کس کو یاں پروا ہے کسو کی ٹھہرو آؤ جاؤ تم
ناز غرور تبختر سارا پھولوں پر ہے چمن کا سو
کیا مرزائی لالہ و گل کی کچھ خاطر میں نہ لاؤ تم
وائے کہ اس ہجراں کشتے نے باغ سے جاتے ٹک نہ سنا
گل نے کہا جو خوبی سے اپنی کچھ تو ہمیں فرماؤ تم
دست و پا بہتیرے مارے سر بھی پھوڑے حیرت ہے
کیا کریے جو بے دست و پا ہم سوں کے ہاتھ آؤ تم
غم میں تمھاری صورت خوش کے سینکڑوں شکلیں گو بگڑیں
بیٹھے ناز و غرور سے بکھرے بال اپنے نہ بناؤ تم
در پہ حرم کے کشود نہیں تو دیر میں جا کر کافر ہو
قشقہ کھینچو پوتھی پڑھو زنار گلے سے بندھاؤ تم
بود نبود ثبات رکھے تو یہ بھی اک بابت ہے میرؔ
اس صفحے میں حرف غلط ہیں کاشکے ہم کو مٹاؤ تم
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *