اپنی آنکھوں سے اسے یاں جلوہ گر دیکھیں گے ہم
میں کہا دیکھو ادھر ٹک تم تو میں بھی جان دوں
ہنس کے بولے یہ تری باتیں ہیں پر دیکھیں گے ہم
پاس ظاہر سے اسے تو دیکھنا دشوار ہے
جائیں گے مجلس میں تو ایدھر ادھر دیکھیں گے ہم
یوں نہ دیں گے دل کسو سیمیں بدن زر دوست کو
ابتدائے عشق میں اپنا بھی گھر دیکھیں گے ہم
کام کہتے ہیں سماجت سے کبھو لیتے ہیں لوگ
ایک دن اس کے کنے جا کر بپھر دیکھیں گے ہم
راہ تکتے تکتے اپنی آنکھیں بھی پتھرا چلیں
یہ نہ جانا تھا کہ سختی اس قدر دیکھیں گے ہم
شورش دیوانگی اس کی نہیں جائے گی لیک
ایک دو دن میرؔ کو زنجیر کر دیکھیں گے ہم